Menu
Menu

جمھوریت سے پھلے خوشحالی: اسلام اباد کو غلاموں سے آزاد کرنا ہے

Posted by Ahmed Quraishi on Dec 7th, 2010

جمھوریت سے پھلے خوشحالی: اسلام اباد کو غلاموں سے آزاد کرنا ہے

Print This Post Print This Post Email This Post Email This Post

 

جمھوریت سے پھلے خوشحالی: اسلام اباد کو غلاموں سے آزاد کرنا ہے 

 

 

وکی لیکس نے ظاہر کر دیا ہے کہ ہماری قیادت کمزور اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس سے ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے حوصلے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر جنرل کیانی تختہ الٹتے ہیں تو یہ امریکا کے ساتہ کی گئی خفیہ سمجہوتوں سے  فوری اور حتمی چھوٹ چھٹاؤ ہوگا اور ہمیں اس کے نتائج کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اس صورتحال سے نبٹنا، نظام حکومت اور فرد کے جوہر سے متعلق ہے۔ انصاف کی بات ہے کہ یہ بہت مشکل دعوت ہے۔

 

احمد قریشی | جنگ
6 December 2010

 

پاکستان کے مستقبل اور انعام حاصل کرنے والی امارات ایئر لائن کے درمیان ایک تعلق ہے مجھے اس کی وضاحت کرنے دیں۔ آج کا پاکستان پی آئی اے کی طرح باصلاحیت تو ہے لیکن دیوالیہ، امنگوں سے محروم اور بدحال ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ قومی ایئرلائن پر کسی بھی دوسری ایئرلائن کی پرواز کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ جو بات کسی ایئرلائن کے بارے میں درست ہے وہی قوموں کیلئے بھی حقیقت ہے۔

امارات ایئر لائن نہیں بلکہ متحدہ عرب امارات نے یہ سب جمہوریت، الیکشن اور قانون کے بغیر حاصل کیا۔ ان کے ہاں آج بھی جمہوریت نہیں، لیکن پھر بھی ان کے پاس نظم و ضبط، قوانین اور اچھی زندگی ہے۔ بہت سے پاکستانی چاہے وہ شہری ہوں، دیہی یا قبائلی، وہ امارات میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ صرف جمہوریت ہونے سے ہمیں سب کچھ نہیں مل جائیگا۔ جس کا ثبوت گزشتہ تین سال ہیں۔ ہم غلط مباحثے میں مشغول ہیں۔ ہمیں تخلیقی صلاحیتوں اور خوشحالی کی ضرورت ہے ان کے بعد الیکشن آتے ہیں۔

 نہیں، یہ فوجی مداخلت کی دعوت نہیں ہے فوج ایک اہم فریق ہے اور اس کا اس میں اہم کردار بھی ہے۔ پاکستانیوں کو کام میں جت جانا ہوگا یہ ان کا ملک ہے۔ تاہم اسلام آباد میں نمایاں تبدیلیوں اور پاکستانیوں کی استراتیجی سوچ میں پیش رفت کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کے امریکی سفارتخانے کی افشاء ہونے والی کیبلز لکہنے والوں کی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔ لیکن وہ ایک بات کی توثیق کرتی ہیں کہ آج پاکستان میں 2005 کے بعد سے بیرونی دخل اندازی کیلئے اپنے عروج پر ہے۔

 منتخب حکومت کے متعلق بات کرنا بیکار ہے جس کے عہدیدار آج دو ڈیل کروانے والے بیرون ممالک کے لئے فرائض کی انجام دہی کر رہے ہیں۔ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری فوج سابق صدر اور آرمی چیف کی وجہ سے اس صورتحال میں پھنس گئی۔ تاہم اس کا سب سے بدترین پہلو یہ ہے کہ حکمران گروہ اور دیگر سیاستدان سابق امریکی سفیر کے ذریعے سیاست کر رہے ہیں۔ آج تمام سیاسی جماعتوں کے بیرونی حکومتوں کے ساتھ براہ راست روابط ہیں جو قومی مفاد کیلئے مضر ہیں۔

 ممکن ہے تمام پاکستانی یہ نہ سمجھ سکیں کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ بیرونی مداخلت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ہمارے سیاستدان اور فوج مشرف دور میں کئے گئے وعدوں کی پابندی کرتے رہیں گے۔ پاکستان کو ان تباہ کن وعدوں کو توڑنے کی شدید ضرورت ہے تاہم ہم چن چن کر اخذ نہیں کر سکتے۔ ہم نے صرف 2007ء میں امریکا کی ثالثی سے ہونے والی مشرف اور بی بی کے درمیان ڈیل کو نہیں چھوڑ نا بل کے دیگر خفیہ سمجہوتوں سے بہی نجات حاصل کرنا ہے۔ یہ ڈیل بین طور پر دیگر شرائط سے وابستہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امریکی مفادات کے لئے خدمات سرانجام دینا ہوں گی۔ جنرل پرویز کیانی، پرویز مشرف، بینظیر بھٹو اور امریکا کے مابین ڈیل اور این آر او میں شریک گفتگو تھے۔ میں اس حوالے سے کیانی صاحب کی ذاتی رائے تو نہیں جانتا لیکن بحیثیت ایک سپاہی کے وہ بصورت اختلاف رای استعفیٰ دینے یا چیف آف آرمی اسٹاف کے احکامات پر عمل کرنے کے پابند تھے۔ مجھے یقین ہے کہ جنرل کیانی نے تمام جماعتوں کی طرح خفیہ سمجھوتے کے تحت اس ڈیل کی حمایت جاری رکھی۔ اسی لئے پیپلز پارٹی ابھی تک برسراقتدار اور سیاسی سیٹ اپ برقرار ہے۔ مگر حتیٰ کہ اگر جنرل کیانی الگ رہنا چاہتے۔ اور مجھ جیسے لوگ ایسا کرنے کے لئے ان پر زور دیتے، لیکن پرویز مشرف کے امریکیوں کے ساتھ کئے گئے عہدوپیمان کو توڑے بغیر بھی یہ ممکن نہیں۔ اور ہم اب اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ڈیل پر تختہ پلٹنے کا فیصلہ تنہا ممکن نہیں ہے۔ اگر جنرل کیانی تختہ الٹتے ہیں تو یہ فوری اور حتمی چھوٹ چھٹاؤ ہوگا اور ہمیں اس کے نتائج کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اس صورتحال سے نبٹنا، نظام حکومت اور فرد کے جوہر سے متعلق ہے۔ انصاف کی بات ہے کہ یہ بہت مشکل دعوت ہے۔

پاکستان کے علاوہ ہمارے خطے میں شامل ہر ملک اپنی گزشتہ آٹھ سالہ پالیسیوں پر نظرثانی اور تبدیل کر چکے ہیں۔ ہم واحد ملک ہے جو سختی سے امریکی ڈکٹیشن کی پابندی کر رہا ہے حتیٰ کہ ہم اپنے آپ کو افزودہ یورینیم کی بیرون ملک منتقلی پر واشنگٹن کو روک نہیں سکتے۔

یہاں کسی بھی طرح سے یہ یقین دہانی نہیں کروائی جا سکتی اس صدی کے بقیہ نو عشروں میں ایک مستحکم، خوشحال اورکامیاب پاکستان کی، اس قسم کی ذہنیت کے ساتھ جہاں خارجہ اور عسکری پالیسیاں دو بیرونی ممالک کے گرد تیار کی جاتی ہیں اور جہاں ہمارے عمائدین بیرونی امداد کے بغیر مشکل وقت برداشت کرنے سے خوفزدہ ہیں۔

 پاکستانی مستحکم کامیاب اور خود مختار پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ قیمت ادا کرنے کو بھی تیار ہیں۔ تاہم فیصلہ سازوں کو جن دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں عوام کو شانہ بشانہ ساتھ لے کر چلیں۔ آیا وہ یہ کریں یا انتشار کے لئے تیار ہو جائیں۔ صحیح یا غلط وکی لیکس نے ظاہر کر دیا ہے کہ ہماری قیادت کمزور اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس سے ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے حوصلے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

 

First published in Jang, Pakistan’s largest Urdu-language newspaper.

 

© 2007-2010. All rights reserved. PakNationalists.com
Verbatim copying and distribution of this entire article is permitted in any medium
without royalty provided this notice is preserved.